آسٹریلیا میں متنازع امیگریشن بل منظور

آسٹریلیا کی وفاقی حکومت لیبر پارٹی کی مدد سے مہاجرین اور تارکین سے متعلق قانون میں متنازع ترامیم منظور کروا لی ہیں۔ اپوزیشن نے بل سینٹ میں پہنچنے پر حکومتی ترامیم کو بدلنے کی کوشش کرنے کا اعلان کیا ہے۔ نئی ترامیم اگر سینٹ سے بھی منظور ہو گئیں تو امیگریشن کے وزیر کو مذید اختیارات مل جائیں گے۔ انہیں غیر ملکیوں کے ویزے منسوخ کرنے اور انہیں ڈی پورٹ کرنے کے اختیارات بھی مل جائیں گے۔ ترامیم کے مطابق اگر کوئی غیر ملکی ایسا جرم کرے جس کی  زیادہ سے زیادہ سزا دو سال تک ہو تو اس کا ویزہ منسوخ کر کے اسے ملک بدر کیا جا سکتا ہے۔ کمیونٹی کے لیے خطرہ سمجھے جانے والے غیر شہری شخص کا ویزہ بھی منسوخ کیا جا سکتا ہے۔

گرین پارٹی کے لیڈر ایڈم بانڈٹ نے لیبر پارٹی پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس نے ایک بری حکومت کے برے قانون کی حمایت کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس بل سے ہمارا ملک زیادہ محفوظ نہیں ہو گا۔ حکومت کے پاس پہلے ہی کردار کی بنیاد پر لوگوں کو ملک بدر کرنے کے خدائی اختیارات جیسی طاقت ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں اور پناہ کی درخواست کرنے والوں کی حمایت کرنے والے بھی اس قانون پر تنقید کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے مذید لوگوں کو گرفتار کرنے کی راہ ہموار ہو گی جن میں ایسے افراد بھی شامل ہیں جو بچپن میں آسٹریلیا آئے اور اپنی ساری زندگی یہیں گزار دی۔

پناہ گزینوں کے ریسورس سنٹر کے مطابق بل منظورہو گیا تو ویزہ درخواست مسترد کرنے  کی شرح پانچ گنا تک بڑھ جائے گی۔ یہ شرخ پہلے ہی سن 2014 کے بعد سے ایک ہزار فیصد بڑھ چکی ہے اور اس سے سب سے زیادہ پناہ گزین متاثر ہو رہے ہیں۔ اسائلیم سیکر ریسورس سنٹر کے ترجمان نے اس قانون کو نسل پرستانہ قرار دیا ہے۔ گزشتہ پانچ سال کے دوران آسٹریلیا میں اس قسم کا قانون منظور کروانے کی دو کوششیں ناکامی کا شکار ہو چکی ہیں۔نیوزی لینڈ پہلے سے آسٹریلیا کی ڈی پورٹیشن پالیسی کا مخالف ہے اور ایسے کسی بھی اقدام کے حق میں نہیں جس سے اس پالیسی کو تقویت ملے۔