برطانیہ :زیر حراست انسانی اسمگلنگ کے متاثرین کی تعداد میں زبردست اضافہ

Naveed Alam

محمدنویدعالم

1 فروری           2022 

انسانی اسمگلنگ کے خلاف مہم چلانے والوں کا کہنا ہے کہ ہوم آفس کی جانب سےانسانی سمگلنگ کا شکار افرادکو لاک اپ کرنے سے پہلے زیادہ تر کی شناخت نہیں کی جاتی۔ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ چار سال میں امیگریشن حراستی مراکز میں بند اسمگلنگ کے متاثرین کی تعداد میں دس گنا سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ چیرٹی فوکس آن لیبر ایکسپلاٹیشن (فلیکس) کے اعداد و شمار کے مطابق 2017 میں 86 افراد  جن پر اسمگلنگ کا شکار ہونے کا شبہ ہے نے حراست کے دوران مثبت فیصلے حاصل کیے۔ دو ہزار بیس تک ایسے افراد کی تعداد بڑھ کر 1053 تک پہنچ گئی۔ اگرچہ اسمگلنگ کے متاثرین کی شناخت کے لئے ہوم آفس طریقہ کار بہت بہتر ہے لیکن انسداد اسمگلنگ مہم چلانے والوں کا کہنا ہے کہ  متاثرین کی اتنی بڑی تعداد کی شناخت ان کو بند کرنے سے پہلے کیوں نہیں کی جاتی ہے۔

 خواتین کے استحصال کے واقعات کے بعد خواتین کے حقوق اور ان کی حراستی کارروائی میں مدد کرنے والی تنظیموں نے ایسے معاملات کو دستاویزی شکل دی ہے جہاں اسمگلنگ کے متاثرین کو کئی ماہ سے حراست میں رکھا گیا ہے۔ حکومت کی نئی پالیسوں کے مطابق انسانی سمگلنگ کے متاثرین کو زیرحراست ہی رکھا جائے گا۔ نئے قواعد کے تحت سمگلنگ کے ممکنہ متاثرین جنہیں امیگریشن حراست میں رکھا گیا ہےکو اگر رہا کیا جاتا ہے تو مستقبل میں نقصان کا امکان ہے۔ نئی قائم کردہ امیگریشن انفورسمنٹ  اتھارٹی کو یہ فیصلہ کرنے کا اختیار دیا گیا ہے کہ جب کوئی شخص حراست میں لیا جائے تو وہ اسمگلنگ کا شکار ہوا ہے یا نہیں اس کا تعین کرے۔

فلیکس کا کہنا ہے کہ اسمگلنگ کے متاثرین کے لئے حراست ایک ناقابل قبول ماحول ہے جس سے قیدیوں کی جسمانی اور ذہنی صحت پر شدید اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر ان کی امیگریشن کی حیثیت غیر یقینی ہے تو نئے قوانین متاثرین کی مدد میں رکاوٹ بن سکتے ہیں۔حکومت کا امیگریشن سے متعلق مخصوص نقطہ نظر متاثرین کے لیئے مزید مشکلات کا سبب بن رہا ہے۔ حکومت کو ایسی پالیسی متعارف کروانے کی ضرورت ہے جو متاثرین کو مدد فراہم کرنے میں معاون ثابت ہو سکے۔

Shopping Basket